کشمیری عوام سے اظہار یکجہتی: پاکستان میں آج یوم استحصال کشمیر منایا جارہا ہے

کشمیری عوام سے اظہار یکجہتی: پاکستان میں آج یوم استحصال کشمیر منایا جارہا ہے
کیپشن: Expressing solidarity with Kashmiri people: Kashmir Exploitation Day is being celebrated in Pakistan today

ایک نیوز: کشمیری عوام سے اظہاریکجہتی کے لیے آج  ملک بھر میں یومِ استحصالِ کشمیر منایا جا رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے ناجائز غاصبانہ انضمام کو 4 سال مکمل ہوگئے۔

تفصیلات کے مطابق آج دنیا بھر میں کشمیری یوم استحصال منارہے ہیں۔ یوم استحصال کے موقع پر شٹر ڈاؤن ہڑتال اور احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ مظاہرین نے مودی سرکار سے کشمیر کی آزاد حیثیت بحال کرنے کا مطالبہ کیا۔ 

یوم استحصال 5 اگست 2019 کو مودی سرکار کی طرف سے آئین کے آرٹیکل * 370 اور 35A* کی غیر آئینی تنسیخ کے خلاف احتجاج کے طور پر منایا جاتا ہے۔ 5  اگست ۲۰۱۹ کو مودی سرکار نے اقوامِ متحدہ کی قرارداد اور ہندوستانی آئین اور مقبوضہ کشمیر کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کشمیر کو ناجائز طور پر غصب کردیا تھا۔غیر آئینی اقدام کے بعد مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی میں شدید اضافہ دیکھنے میں آیا۔

کشمیر میڈیا سروس کے مطابق تحریک آزادی کشمیر کو کچلنے کے لیے مودی سرکار نے ڈیڑھ سال تک مقبوضہ کشمیر میں انٹرنیٹ اور ٹیلی فون ریسورسز کو معطل کیے رکھا ۔5 اگست 2019 سے اب تک 1100 سے زائد املاک نذر آتش اور 21000 سے زائد کشمیری جیل میں قید کردیے گئے۔ یوم استحصال کی مناسبت سے پاکستان اور آزاد کشمیر میں عوامی ریلیوں اور اجتماعات کا انعقاد کیا گیا۔

کشمیریوں کے یوم استحصال پر اظہار خیال کرتے ہوئے بھارتی عوام نے کہا کہ: "یہ آئین پر حملہ ہے مودی حکومت نے کشمیریوں کو دھوکہ دیا ہے"۔"یہ فیصلہ سیکیولرازم کے منہ پرطمانچہ ہے"۔"تاریخ مودی کو کبھی معاف نہیں کرے گی"۔

ڈپلومیٹ شمشاد احمد نے کہا کہ "انڈیا آزادی کے بعد سے خود کو سیکولر ملک کے طور پر پیش کرتا رہا ہے جبکہ سچ یہ ہے کہ انڈیا ہمیشہ سے ایک ہندو ملک رہا ہے"۔
احمد بلال بین الاقوامی ماہر قانون کے مطابق "موجودہ صورتحال میں میں کشمیریوں کے حق خودارادیت کو ناصرف ختم کیا جا رہا ہے بلکہ ان کے انسانی حقوق اور خطے کے امن کے لیے بھی بڑا خطرہ ہے"۔
ایم پی کانگریس کا کہنا ہے کہ "انڈیا کے آئینی تاریخ میں یہ ایک سیاہ دن ہوگا جس سے آنے والی نسلوں کو یہ احساس ہوگا کہ آج کتنی بڑی غلطی کی گئی ہے"۔ "یہ ہندوستان کے آئین، جمہوریت، سیکیولرازم اور وفاق پر بہت بڑا حملہ ہے"۔
ریسرچر فواد حفیظ کا کہنا ہے کہ "مودی حکومت کا فاشسٹ نظریہ ہندوتوا ہے جو کہ شاید عالمی برادری کی وجودیت کو لاحق آج کا سب سے بڑا خطرہ ہے"۔

مشال ملک کا کہنا ہے کہ "عالمی برادری کا شہری ہونے کے ناطے ہمیں چاہیے کہ مل کر کشمیریوں کے لیے آواز اٹھائیں اور ان کی مدد کریں اور کشمیر کو بچا لیں"۔

کشمیری اپنی آزادی کی جد وجہد میں بہت قربانیاں دے چکے ہیں، آج ان کے پاس کھونے کو کچھ نہیں۔ کشمیری نہ ہارے ہیں اور نہ انہیں کوئی ہراسکتا ہے۔

یوم استحصال کشمیر کے حوالےسے شاہراہِ دستور اسلام آباد پر ریلی:

یوم استحصال کشمیر کے حوالے شاہراہ دستور اسلام آباد پر ریلی کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں عوام کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ عوام نے بھارت کے 05 اگست 2019 کے اقدامات کے خلاف احتجاج کیا اورکشمیری شہدا کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ایک منٹ کی خاموشی بھی اختیار کی۔

وزیر اعظم کے مشیر برائے امور کشمیر و گلگت بلتستان قمر زمان کائرہ نے ریلی میں شرکت کی۔ریلی کے شرکاء نے شہدائے کشمیر کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا۔

بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کیسے ختم کی؟

بھارت نے 5 اگست 2019 کو راجیہ سبھا میں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا بل پیش کرنے سے قبل ہی صدارتی حکم نامے کے ذریعے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی اور ساتھ ساتھ مقبوضہ کشمیر کو وفاق کے زیرِ انتظام دو حصوں یعنی (UNION TERRITORIES) میں تقسیم کردیا جس کے تحت پہلا حصہ لداخ جبکہ دوسرا جموں اور کشمیر پر مشتمل ہوگا۔

بھارت نے یہ دونوں بل لوک سبھا سے بھی بھاری اکثریت کے ساتھ منظور کرائے۔

آرٹیکل 370 کیا ہے؟

بھارتی آئین کا آرٹیکل 370 مقبوضہ کشمیر میں خصوصی اختیارات سے متعلق ہے۔

آرٹیکل 370 ریاست مقبوضہ کشمیر کو اپنا آئین بنانے، اسے برقرار رکھنے، اپنا پرچم رکھنے اور دفاع، خارجہ و مواصلات کے علاوہ تمام معاملات میں آزادی دیتا ہے۔

بھارتی آئین کی جو دفعات و قوانین دیگر ریاستوں پر لاگو ہوتے ہیں وہ اس دفعہ کے تحت ریاست مقبوضہ کشمیر پر نافذ نہیں کیے جا سکتے۔

بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت کسی بھی دوسری ریاست کا شہری مقبوضہ کشمیر کا شہری نہیں بن سکتا اور نہ ہی وادی میں جگہ خرید سکتا ہے۔

بھارت نے آرٹیکل 370 کو ختم کرنے سے قبل ہی مقبوضہ کشمیر میں اضافی فوجی دستے تعینات کردیے تھے کیوں کہ اسے معلوم تھا کہ کشمیری اس اقدام کو کبھی قبول نہیں کریں گے۔