القادر ٹرسٹ کیس کیا ہے ؟

 القادر ٹرسٹ کیس کیا ہے ؟
کیپشن:  القادر ٹرسٹ کیس کیا ہے ؟

 ایک نیوز :  القادر ٹرسٹ کیس عبدالقادر یونیورسٹی کے لئے548 ایکڑ اراضی کی الاٹمنٹ اور عطیہ کئے جانے سے متعلق ہے۔
  رپورٹ کے مطابق اس معاملے کی ابتدا پاکستان کے معروف پراپرٹی ٹائیکون اور بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض حسین کے خاندان پر برطانیہ میں دائر ہونے والے ایک مقدمے سے ہوئی۔ 
عمران خان کے دورِ حکومت میں بحریہ ٹاؤن کی رقم برطانیہ میں ضبط کی گئی جس کے بعد پاکستان کی وفاقی حکومت اور بحریہ ٹاؤن کے درمیان خفیہ طور پر تصفیہ ہو گیا تھا۔ 
ان کے بعد نئی بننے والی اتحادی حکومت کی جانب سے الزام عائد کیا گیا تھا کہ بحریہ ٹاؤن نے 50 ارب روپے غیرقانونی طور پر برطانیہ منتقل کیے جنہیں وہاں منجمند کر لیا گیا تھا۔ عمران خان کی حکومت کی جانب سے یہ رقم واپس لانے کے بجائے برطانیہ میں بحریہ ٹاؤن کو ریلیف دیا گیا۔‘ 
حکومت کا دعویٰ تھا کہ ’بحریہ ٹاؤن کے جو پیسے برطانیہ میں پکڑے گئے وہ سپریم کورٹ کی فیصلے کے بعد واجب الادا رقم میں ایڈجسٹ کر دیے گئے تھے۔‘ 
جون 2022 میں پاکستان کی اتحادی حکومت نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ تحریک انصاف کی حکومت نے بحریہ ٹاؤن کے ساتھ معاہدے کے بدلے اربوں روپے کی اراضی سابق وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے نام منتقل کی۔ 
اس وقت وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد اس خفیہ معاہدے سے متعلق کچھ تفصیلات بھی منظرعام پر لائی گئی تھیں۔ 
ان دستاویزات میں اُس وقت کے وزیراعظم کے معاون خصوصی  برائے احتساب اور ایسٹ ریکوری یونٹ کے سربراہ شہزاد اکبر کا وزیراعظم کو لکھا گیا نوٹ بھی شامل تھا جس کے تحت وزیراعظم عمران خان نے نیشنل کرائم ایجنسی، بحریہ ٹاؤن اور ایسیٹ ریکوری یونٹ کے درمیان خفیہ معاہدے کی منظوری دی گئی۔ 
حکومت نے یہ الزام عائد کیا تھا کہ بحریہ ٹاؤن کی ضبط کی گئی رقم پر ریلیف دیتے ہوئے بدلے میں بحریہ ٹاؤن سے اراضی حاصل کی گئی۔ اس حوالے سے حکومت کی جانب سے القادر یونیورسٹی ٹرسٹ کی دستاویزات بھی منظر عام پر لائی گئیں۔   
منظرعام پر لائی گئی ان دستاویزات کے مطابق 24 مارچ 2021 کو بحریہ ٹاؤن نے القادر یونیورسٹی ٹرسٹ کو ضلع جہلم سوہاوا میں 458 کنال کی اراضی عطیہ کی۔  
عطیہ کی گئی اس اراضی کا معاہدہ بحریہ ٹاؤن اور سابق خاتون اول بشریٰ بی بی کے درمیان ہوا۔ 
ان دستاویزات پر سابق وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے بطور ٹرسٹی القادر یونیورسٹی پراجیکٹ ٹرسٹ کی جانب سے دستخط کیے گئے۔ 
قبل ازیں اس کیس میں نیب نے رواں برس نو جنوری کو تحریک انصاف کے رہنما اور سابق معاون خصوصی زلفی بخاری کو بھی طلب کیا تھا۔