فاٹا کا انضمام ختم کرنے پر کوئی بات نہیں ہوگی، رانا ثنااللہ

فاٹا کا انضمام ختم کرنے پر کوئی بات نہیں ہوگی، رانا ثنااللہ
ایک نیوز نیوز:وفاقی وزیرداخلہ راناثنااللہ نے کہا ہے کہ پاک-افغان سرحد سے فوج کی واپسی اور فاٹا کا انضمام ختم کرنے کی شرط پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے مذاکرات ممکن نہیں ہے کیونکہ یہ مطالبات آئین کے خلاف ہیں۔

نجی ٹی وی چینل میں میزبان کے سوالوں کے جواب دیتےہوئے وزیرداخلہ رانا ثنااللہ نے کہا کہ جو لوگ ہتھیار ڈالنے کے خواہاں ہیں ان کے ساتھ مذاکرات ممکن ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ‘آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) واقعے سے منسلک ناموں کو معافی کا سوچا بھی نہیں جاسکتا ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ دیکھا جائے گا کہ دوسری جانب سے کس طرح کے لوگ مذاکرات میں حصہ لیتے ہیں، اگر افغانستان کی سیاسی حکومت کے نمائندے موجود ہوتے ہیں تو پھر ہماری طرف سے بھی سیاست دان مذاکرات میں حصہ لیں گے۔
وزیرداخلہ کا کہنا تھا کہ یقین نہیں تھا کہ مذاکرات کے نتائج ہفتوں میں سامنے آئیں گے اور اس میں چند ماہ لگیں گے۔
انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ سول اور عسکری قیادت ایک صفحے پر ہے کہ ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو اسلحہ اٹھانے کی اجازت نہیں دی جائے گی، دوسری صورت میں ہم لڑائی سے گریز نہیں کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘عسکری قیادت نے یقین دلایا ہے کہ ہمارے پاس ایسے مسائل کا مؤثر حل نکالنے کی صلاحیت اور قوت ہے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘نہ فوج واپس بلانے پر بات ہوگی، نہ آئین پاکستان سے ہٹ کر بات ہوگی، نہ فاٹا کے انضمام کو واپس قبائلی علاقے کی حیثیت دینے پر بات ہوگی کیونکہ یہ آئین کے خلاف ہے، اس کے لیے کوئی بات نہیں ہوگی’۔

یاد رہے کہ قومی اسمبلی نے 24 مئی 2018 کو آئینی ترمیم منظور کی تھی، جس کے تحت وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) کے صوبہ خیبرپختونخوا میں ضم ہونے کی راہ ہموار ہوئی تھی۔

رانا ثنااللہ نے کہا کہ پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں بیرونی ہاتھ کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا، ٹی ٹی پی کے پیچھے چند طاقتیں ہیں جو ملک میں امن نہیں چاہتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز سلامتی پر دی گئی بریفنگ جامع تھی، جس میں تمام مسائل کا احاطہ کیا گیا تھا لیکن کوئی ‘اقدامات تجویز’ نہیں کیے گئے۔
وزیرداخلہ کا کہنا تھا کہ پارلیمانی کمیٹی اور قانون سازوں سے سفارشات طلب کی گئی ہیں اور مختلف کارروائیوں کے اثرات کے بارے میں آگاہ کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘وزیراعظم شہباز شریف سے لے کر آصف علی زرداری، جعمیت علمائے اسلام سمیت عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) تک سب کا کمیٹی میں اتفاق رائے تھا کہ ٹی ٹی پی سے مذاکرات ہونے چاہیئں’۔
وزیرداخلہ نے ان رپورٹس کو مسترد کردیا کہ سابق وزیراعظم عمران خان کو کوئی سیکیورٹی خطرہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما بابراعوان نے عمران خان کی زندگی کو خطرات کے حوالے سے ‘جھوٹے’ خدشات ظاہر کیے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ‘جب ہم نے اس کا جائزہ لیا تو ان دعووں پر کوئی سچائی نہیں تھی’۔
ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے دوسرے رہنما فیاض الحسن چوہان نے دعویٰ کیا تھا کہ عمران خان کو افغانستان سے خطرات ہیں اور اگر ایسا ہے تو پارٹی کو اس معاملے پر ہوا کھڑا کرنے کے بجائے متعلقہ اداروں کو خدشات سے آگاہ کرنا چاہیے۔
ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ اگر عمران خان پنجاب اسمبلی کی 20 نشستوں پر ضمنی انتخاب کے لیے اپنی پارٹی کی مہم چلاتے ہیں تو انہیں ‘مکمل سیکیورٹی’ دی جائے گی۔
وزیرداخلہ نے کہا کہ عمران خان کو ان کے انتہاپسندانہ خیالات اور کشیدگی پھیلانے پر گرفتار کردینا چاہیے۔
انہوں نے واضح کیا کہ اب کسی کو بھی دارالحکومت کا امن خراب کرنے کے لیے اسلام آباد میں داخلے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
پاک فوج کے اگلے سربراہ کی تعیناتی کے حوالے سے ایک سوال پر وزیرداخلہ نے کہا کہ اس حوالے سے فیصلہ اکتوبر میں کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ یہ روایت ہے کہ چیف آف آرمی اسٹاف کی تعینات ریٹائرمنٹ سے ایک مہینے پہلے کی جاتی ہے ‘لیکن یہ بھی روایت ہے کہ موجودہ آرمی چیف کی مدت کے خاتمے کے قریب ہی اعلان کیا جاتا ہے’۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد کے حوالے سے سوال پر رانا ثنااللہ نے کہا کہ انہوں نے وزیراعظم شہباز شریف کو بتایا ہے کہ پارٹی کے سینئر رہنما اسحٰق ڈار کو ملک میں واپس آنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ میں نے پارٹی قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف سے بھی وطن واپس آنے کی درخواست کی ہے۔