حمزہ شہباز کوعہدے سے ہٹانے کی درخواست پر سماعت مکمل ،فیصلہ محفوظ

حمزہ شہباز کوعہدے سے ہٹانے کی درخواست پر سماعت مکمل ،فیصلہ محفوظ
سلیمان اعوان: لاہور ہائیکورٹ میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ پنجاب کے عہدے سے ہٹانے کیلئے درخواستوں پر سماعت مکمل ہوگئی. عدالت نے فیصلہ محفوظ کر کےسماعت کل ساڑھے 12 بجے تک ملتوی کردی۔

جسٹس صداقت علی خان کی سربراہی میں پانچ رکنی فل بینچ نے سماعت کی۔ بینچ میں جسٹس شاہد جمیل خان، جسٹس شہرام سرورچوہدری، جسٹس ساجد محمود سیٹھی اور جسٹس طارق سلیم شیخ شامل ہیں۔
وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کی جانب سے وکیل منصور اعوان جبکہ تحریک انصاف کے علی ظفر اور ق لیگ کے وکیل عامر سعید نے عدالت میں پیش ہو کر دلائل دیے، جبکہ صدر مملکت کی نمائندگی احمد اویس، سپیکر پرویز الہی کی بیرسٹر علی ظفر اور امتیاز صدیقی نے کی۔
سماعت کے دوران جسٹس شاہد جمیل نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کی تشریح موجودہ حالات میں لاگو ہوگی، اگر ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ فیصلے کا اطلاق ماضی سے ہوگا تو ہم فوری احکامات جاری کریں گے۔
جسٹس شاہد جمیل نے ریمارکس دیے کہ مخصوص نشستوں کا نوٹیفیکیشن جاری ہوتا ہے یا نہیں یہ معاملہ عدالت کے سامنے نہیں ہے، ہم الیکشن اور سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کو دیکھ رہے ہیں۔
اپنے دلائل پیش کرتے ہوئے حمزہ شہباز کے وکیل منصور اعوان نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کا اطلاق مستقبل کے کیسز پر بھی ہوا ہے۔ جس پرجسٹس شاہد جمیل کا کہنا تھا کہ ’سپریم کورٹ میں جاکر اس فیصلے پر نظر ثانی کروائیں، اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں ہم تو سپریم کورٹ کا فیصلہ اطلاق سمجھتے ہیں۔
جسٹس ساجد محمود سیٹھی نے ریمارکس دیے کہ ’اب تو پورے پاکستان کو پتا چل گیا ہے کہ ہم یہ سوچ کر بیٹھے ہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا ماضی سے اطلاق ہوگا۔
جسٹس شاہد جمیل خان نے حمزہ شہباز شریف کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا آئین کے آرٹیکل 186 کے دائرہ اختیار میں جاری فیصلوں کا ماضی سے اطلاق ہوسکتا ہے؟ جس پر حمزہ شہباز کے وکیل کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے موجود ہیں جن میں کہا گیا ہے جو اصول طے کیا گیا اس کا اطلاق مستقبل میں ہوگا اور ویسے بھی اگر کسی فیصلے کا اطلاق ماضی سے کرنا ہو توعدالتی فیصلے میں اس کا ماضی سے اطلاق سے متعلق تحریر کیا جاتا ہے۔
جسٹس شاہد جمیل خان نے ریمارکس دئیے کہ اگرصدارتی ریفرنس پر کوئی فیصلہ آیا ہو جس کا اطلاق ماضی سے نہ ہوا ہو اس کا حوالہ پیش کریں۔ جسٹس صداقت علی خان کا کہنا تھا کہ آئین کے تحت سپریم کورٹ کا منحرف اراکین سے متعلق فیصلہ آئین کا حصہ تصور کیا جاتا ہے، جس پر مرزا نصر احمد نے کہا کہ امریکی عدالتوں کے فیصلوں کے مطابق عدالتی فیصلوں کا اطلاق حال اور مستقبل سے ہوتا ہے۔ جسٹس شاہد جمیل خان نے ریمارکس دئیے کہ وہ فلاسفی ہے، امریکی عدالتوں کےفیصلے کا ہم پر نفاذ لازم و ملزوم نہیں۔
حمزہ شہباز کے وکیل نے موقف اختیا رکیا کہ میری استدعا تو یہی ہے کہ اس معاملے کو التواء میں رکھا جائے، سپریم کورٹ میں تحریک انصاف نے 14 اپریل کو دائر درخواست میں بھی یہ نشاندہی نہیں کی کہ پنجاب کے اراکین منحرف ہو رہے ہیں۔
عدالت نے صدر مملکت کے وکیل احمد اویس سے استفسار کیا کہ کیا گورنراور صدر کے متعلق فیصلے میں ریمارکس پر کچھ کہنا چاہیں گے؟ جسٹس ساجد محمود سیٹھی نے کہا کہ فرض کریں حلف کا نوٹیفکیشن بھی اڑا دیتے ہیں؟ پھر ریمارکس کی حد تک معاملہ باقی رہ جائے گا؟ احمد اویس ایڈووکیٹ کا موقف تھا کہ میری گزارش یہی ہے کہ گورنر اور صدر سے متعلق ریمارکس کو کالعدم کرنا پڑے گا۔ جسٹس صداقت علی خان نے پوچھا کہ کیا وجوہات ہیں جن کی بناء پر ان ریمارکس کو کالعدم کیا جائے؟
جسٹس ساجد محمود سیٹھی نے ریمارکس دئیے کہ آپ کہنا یہ چاہ رہے ہیں کہ گورنر اور صدر مملکت کو سنا ہی نہیں گیا اس لئے ان ریمارکس کو کالعدم کیا جائے؟جسٹس طارق سلیم شیخ نے ریمارکس دئیے احمد اویس صاحب! آپ نے عدالت کی معاونت کرنی ہے عدالت نے آپ کی معاونت نہیں کرنی۔
جسٹس شاہد جمیل خان نے استفسار کیا کہ کیا سپریم کورٹ کے فیصلے کا اطلاق ماضی سے ہوسکتا ہے؟ سپریم کورٹ کے فیصلے پر پہلے ہم حمزہ شہباز کے وکیل کے دلائل سنیں گے۔ جس پر بیرسٹر علی ظفر نے درخواست کی کہ حمزہ شہباز کو عہدے سے ہٹانے کی درخواست میری تھی اس لئے مجھے پہلے سنا جائے، جس پر جسٹس شاہد جمیل نے ریمارکس دئیے کہ آپ صرف عدالت سوالوں کے جواب دیں گے، لمبے دلائل نہیں دیں گے۔ بیرسٹرعلی ظفر نے کہا کہ عدالت اس معاملے پر ماضی یا مستقبل کے نکتے پر نہ جائے،سپریم کورٹ کے فیصلے پرعمل درآمد کر دیا جائے۔ جس پر عدالت کا کہنا تھا کہ آپ الیکشن کے فوری بعدعدالت میں نہیں بلکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے انتظار کے بعد آئے ہیں۔ جسٹس شاہد جمیل خان نے پوچھا کہ کیا عدالت حمزہ شہباز کے وزیراعلی کا نوٹیفکیشن کالعدم کرسکتی ہے؟ کیا یہ عدالت پریزائیڈنگ افسر کا کردارادا کرسکتی ہے؟ بیرسٹرعلی ظفر نے جواب دیا کہ اگر منحرف اراکین کے ووٹ شمار نہیں کئے جاتے تو عدالت کو پریزائیڈنگ افسر کو ہدایت کرنا پڑے گی کہ دوبارہ الیکشن کروائے جائیں۔ جس پر جسٹس صداقت علی خان نے ریمارکس دیئیے کہ عدالت صرف پریزائیڈنگ افسر کو کہہ سکتی ہے کہ منحرف اراکین کے ووٹ شمار کر کے غلط کیا گیا۔ بیرسٹر علی ظف نے کہا کہ دوبارہ انتخاب ہوگا مگر حمزہ شہباز کا نوٹیفکیشن کالعدم ہوگا۔
خیال رہے کہ منگل کو درخواستوں پر سماعت مکمل کرتے ہوئے حکومت سے ہدایات لینے کے لیے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو ایک روز کی مہلت دی تھی۔
منگل کو ایڈووکیٹ جنرل پنجاب شہزاد شوکت نے عدالت میں پیش ہو کر بتایا تھا کہ ہدایات لینے کے لیے کل تک مہلت دی جائے۔ جسٹس صداقت علی خان نے کہا تھا کہ عدالت بغیر کسی دباؤ کے فیصلہ دے گی۔